فجر کی نماز کے فضائل
February 3, 2017top 10 easy muslim boys name
November 8, 2024لائے نفی جنس کا کیا عمل ہے؟ لائے نفی جنس کا اسم اکثر کیسا ہوتا ہے؟
لائے نفی جنس کا اسم کب فتحہ پر مبنی ہوتا ہے؟
۔ افعالِ مقاربہ کی تعریف مع مثال بیان کرو۔
۵۰۔ افعالِ مقاربہ کتنے ہیں؟ ۵۱۔ عَسیٰ کس لیے ہے؟
۵۲۔ کَادَ کس لیے ہے؟ ۵۳۔ باقی افعالِ مقاربہ کیا معنی دیتے ہیں؟
الدَّرسُ الثاني والثَّلاثون
مفعول مطلق کا بیان
مفعول مطلق وہ مصدر ہے جو فعل کے ہم لفظ یا ہم معنی ہو اور فعل کے بعد آئے۔ جیسے: ضَرَبْتُ ضَرْبًا اور قَعَدْتُّ جُلوسًا۔ مفعول مطلق منصوب ہوتا ہے اور تین مقاصد کے لیے آتا ہے۔
۱۔ تاکید کے لیے۔ جیسے: ضَرَبْتُ ضَرْبًا (میں نے مار ماری )۔ ۲۔ کام کی نوعیت بیان کرنے کے لیے۔ جیسے: جَلَسْتُ جِلسۃَ القاري (میں قاری کی طرح بیٹھا)۔ ۳۔ کام کی تعداد بیان کرنے کے لیے۔ جیسے: جَلَسْتُ جَلْسَۃً (میں ایک مرتبہ بیٹھا)۔
قاعدہ: جو مفعول مطلق تاکید کے لیے ہوتا ہے اس کا تثنیہ، جمع نہیں آتا اور جو عدد کے لیے ہوتا ہے اس کا تثنیہ، جمع آتا ہے۔ جیسے: جَلَسْتُ جَلْسَۃً / جَلْسَتَیْنِ/ جَلْسَاتٍ (میں ایک مرتبہ / دو مرتبہ / کئی مرتبہ بیٹھا) اور جو نوع کے لیے ہوتا ہے اس میں اختلاف ہے۔
قاعدہ: جب قرینہ پایا جائے تو مفعول مطلق کے فعل کو حذف کرنا جائز ہے۔ جیسے: آنے والے سے کہنا: خَیْرَ مَقْدَمٍ1 (آپ کا آنا مبارک ہو)۔
قاعدہ: بعض جگہ مفعول مطلق کے فعل کو حذف کرنا واجب ہوتا ہے، اور یہ جگہیں سماعی ہیں۔ جیسے: سَقْیًا۔ شُکْرًا، حَمْدًا، رعْیًا، سُنَّۃَ اللّٰہِ، وَعْدَ اللّٰہِ۔
مفعول بہٖ کا بیان
مفعول بہٖ وہ اسم ہے جس پر کام کرنے والے کا کام واقع ہوا ہو۔ جیسے: قَرَأْتُ الکِتَابَ میں الکتاب مفعول بہ ہے کیوں کہ وہ پڑھی گئی ہے۔ مفعول بہ منصوب ہوتا ہے اور اس کا درجہ فاعل کے بعد ہے، مگر کبھی فاعل سے اور کبھی فعل سے بھی پہلے آتا ہے۔ جیسے: أَکَلَ الْخُبْزَ مُحَمّدٌ اور زَیْدًا ضَرَبْتُ۔
قاعدہ: اگر قرینہ پایا جائے تو مفعول بہ کے فعل کو حذف کرنا جائز ہے۔ جیسے: مَنْ أَضْرِبُ؟ کے جواب میں صرف زَیْدًا کہنا یعنی اِضْرِبْ زَیْدًا۔
الدرسُ الثّالثُ والثَّلاثُون
مفعول بہٖ کے باقی قواعد
قاعدہ: چار جگہ مفعول بہ کے فعل کو حذف کرنا واجب ہے۔ ان میں سے ایک جگہ سماعی ہے، باقی تین قیاسی ہیں اور وہ یہ ہیں:
۱۔ تَحْذِیْر ۔ ۲۔ إِضْمَار عَلیٰ شَرْطِ التَّفسِیْر۔ ۳۔ مُنَادیٰ۔
۱۔ سماعی یعنی جہاں اہل لسان سے مفعول بہ کے فعل کا حذف مروی ہو وہاں حذف واجب ہے۔ جیسے: مہمان سے أَہْلًا وسَہْلًا کہنا یعنی أَتَیْتَ أَہْلًا ووَطِئْتَ سَہْلًا۔1
۲۔ تحذیر کے معنی ہیں ڈرانا، اور جس چیز سے ڈرایا جائے اس کو مُحَذَّر مِنْہٗ کہتے ہیں۔ جیسے: البئر! البئرَ! (کنواں کنواں!)۔ یہاں فعل اِتَّقِ (بچ تو) محذوف ہے اور کنواں محذر منہ ہے۔ إِیَّاکَ والأسَدَ (بچ تو شیر سے) اس کی اصل اِتَّقِ نَفْسَکَ مِنَ الأسَدِ ہے یعنی بچا تو اپنے کو شیر سے۔
۳۔ إضمار علی شرط التفسیر کے معنی ہیں مفعول بہ کے عامل کو اس شرط سے پوشیدہ کرنا کہ بعد میں اس کی تفسیر آئے۔ جیسے: زَیْدًا1 ضَرَبْتُہٗ (میں نے زید کو مارا)۔ اس میں زَیْدًا سے پہلے ضرَبْتُ پوشیدہ ہے جس کی تفسیر بعد والا ضَرَبْتُ کر رہا ہے